اسلم فریدی کی ایک خوبصورت غزل آپ سب کی نظر کرتا ہوں، امید کرتا ہوں پسند آئیگی۔ شکریہ
روشنی یوں بھی مرے گھر میں ہوا کرتی ہے
خون کی بوند سے قندیل جلا کرتی ہے
تو نے پوچھا نہ کبھی شعلہء نمناک کا حال
آتش اشک میں کیوں آنکھ رہا کرتی ہے؟
ظلمت شب سے ابھرتی ہوئی چیخیں تو سنو
یہ وہ آواز ہے جو حشر بپا کرتی ہے
جب گزرتا ہوں محبت کے شبستانوں سے
اس کی خوشبو مجھے پہچان لیا کرتی ہے
چوٹ ہے دل کی مگر آنکھ کو روتے دیکھا
کون مجرم ہے سزا کس کو ملا کرتی ہے
اپنے دروازے پہ تختی تو کوئی نصب کرو
گھر کی دیوار مکینوں سے گلہ کرتی ہے
اچھے وقتوں پہ فریدیؔ نہ کبھی ناز کرو
آزمائش کبھی یوں بھی تو ہوا کرتی ہے
شاعر: اسلم فریدیؔ
Comments
Post a Comment